دل میں جو بات کھٹکتی ہے دہن تک پہنچے
خامشی مرحلۂ عرض سخن تک پہنچے
محرم حسن بہاراں تو نہیں ہو سکتی
وہ نظر صرف جو گل ہائے چمن تک پہنچے
زندگی نام اسی موج مے ناب کا ہے
مے کدے سے جو اٹھے دار و رسن تک پہنچے
گلستانوں کا اجارہ نہیں فصل گل پر
فصل گل وہ ہے جو ہر دشت و دمن تک پہنچے
عہد ہم نے بھی کیا تھا نہ ملیں گے اس سے
بارہا ہم بھی اسی عہد شکن تک پہنچے
بات کرتا ہے بظاہر بڑی سادہ سی کمالؔ
جو سخن ور ہیں وہی اس کے سخن تک پہنچے
غزل
دل میں جو بات کھٹکتی ہے دہن تک پہنچے
کمال احمد صدیقی