EN हिंदी
جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں | شیح شیری
jhunjhlae hain lajae hain phir muskurae hain

غزل

جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

خمارؔ بارہ بنکوی

;

جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

گزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں

اے جوش گریہ دیکھ نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں آنسو پرائے ہیں

اے موت اے بہشت سکوں آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں

جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زہد کے صحرا سے آئے ہیں

انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں

سمجھاتے قبل عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرت خمارؔ
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں