EN हिंदी
فاساد شیاری | شیح شیری

فاساد

17 شیر

میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں
جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے

عرفان ستار




دیوار و در پہ خون کے چھینٹے ہیں جا بہ جا
بکھرا ہوا ہے رنگ حنا تیرے شہر میں

کیف عظیم آبادی




اس قدر میں نے سلگتے ہوئے گھر دیکھے ہیں
اب تو چبھنے لگے آنکھوں میں اجالے مجھ کو

کاملؔ بہزادی




یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور
یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے

خورشید ربانی




دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

ملک زادہ منظور احمد




جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا

عبید اللہ علیم




جلے مکانوں میں بھوت بیٹھے بڑی متانت سے سوچتے ہیں
کہ جنگلوں سے نکل کے آنے کی کیا ضرورت تھی آدمی کو

پرکاش فکری