یہ زمانہ کہیں مجھ سے نہ چرا لے مجھ کو
کوئی اس عالم دہشت سے بچا لے مجھ کو
میں اسی خاک سے نکلوں گا شرارہ بن کر
لوگ تو کر گئے مٹی کے حوالے مجھ کو
کوئی جگنو کوئی تارا نہ اجالا دے گا
راہ دکھلائیں گے یہ پاؤں کے چھالے مجھ کو
ان چراغوں میں نہیں ہوں کہ جو بجھ جاتے ہیں
جس کا جی چاہے ہواؤں میں جلا لے مجھ کو
درد کی آنچ بڑھے گی تو پگھل جاؤں گا
اپنے آنچل میں کوئی آ کے چھپا لے مجھ کو
اس قدر میں نے سلگتے ہوئے گھر دیکھے ہیں
اب تو چبھنے لگے آنکھوں میں اجالے مجھ کو
تذکرہ میرا کتابوں میں رہے گا کاملؔ
بھول جائیں گے مرے چاہنے والے مجھ کو
غزل
یہ زمانہ کہیں مجھ سے نہ چرا لے مجھ کو
کاملؔ بہزادی