ضبط کی حد سے گزر کر خار تو ہونا ہی تھا
شدت غم کا مگر اظہار تو ہونا ہی تھا
آئنے کب تک سلامت رہتے شہر سنگ میں
ایک دن پتھر کوئی بیدار تو ہونا ہی تھا
خاک میں ملنا ہی تھا اک دن غرور زندگی
ریت کی دیوار کو مسمار تو ہونا ہی تھا
کس طرح کرتے نظر انداز اپنے آپ کو
اک نہ اک دن زندگی سے پیار تو ہونا ہی تھا
کوئی آمادہ نہ تھا راہیں بدلنے کے لیے
راستہ ملت کا پھر دشوار تو ہونا ہی تھا
جس طرف دیکھا ادھر اپنے ہی تھے خنجر بکف
پھر مرے ایثار کو تلوار تو ہونا ہی تھا
خواہشیں بے ربط تھیں بے ذوق تھا دست طلب
ایسی حاجت کا صلہ انکار تو ہونا ہی تھا
ایک دن کہنا ہی تھا اک دوسرے کو الوداع
آخرش سالمؔ جدا اک بار تو ہونا ہی تھا
غزل
ضبط کی حد سے گزر کر خار تو ہونا ہی تھا
سالم شجاع انصاری