ہم کلامی میں در و دیوار سے
کتنے جذبے رہ گئے اظہار سے
دھوپ بڑھتے ہی جدا ہو جائے گا
سایۂ دیوار بھی دیوار سے
ہجر کا لمحہ مکمل ہو گیا
روشنی جب کٹ گئی مینار سے
ٹوٹ کر بکھرے خود اپنے سوگ میں
دل لگا کر درد کے رخسار سے
نیم وا گلیاں چرا کر لائی ہیں
کیسا سپنا دیدۂ بے دار سے
کتنے ہی مایوس لمحوں کے بھنور
ہم نے ناپے ذہن کے پرکار سے
عمر بھر طارقؔ الجھتے ہی رہے
جسم کی گرتی ہوئی دیوار سے
غزل
ہم کلامی میں در و دیوار سے
بہرام طارق