EN हिंदी
ہم کلامی میں در و دیوار سے | شیح شیری
ham-kalami mein dar-o-diwar se

غزل

ہم کلامی میں در و دیوار سے

بہرام طارق

;

ہم کلامی میں در و دیوار سے
کتنے جذبے رہ گئے اظہار سے

دھوپ بڑھتے ہی جدا ہو جائے گا
سایۂ دیوار بھی دیوار سے

ہجر کا لمحہ مکمل ہو گیا
روشنی جب کٹ گئی مینار سے

ٹوٹ کر بکھرے خود اپنے سوگ میں
دل لگا کر درد کے رخسار سے

نیم وا گلیاں چرا کر لائی ہیں
کیسا سپنا دیدۂ بے دار سے

کتنے ہی مایوس لمحوں کے بھنور
ہم نے ناپے ذہن کے پرکار سے

عمر بھر طارقؔ الجھتے ہی رہے
جسم کی گرتی ہوئی دیوار سے