EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ موسموں پر اچھالتا ہے سوال کتنے
کبھی تو یوں ہو کہ آسماں سے جواب برسے

طفیل چترویدی




یہ بپھرتی موج اندیشے سمندر اور میں
ڈوبتی سانسیں ہتھیلی پر مرا سر اور میں

طفیل چترویدی




ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی
ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی

افق لکھنوی




ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی
ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی

افق لکھنوی




بڑھتے چلے گئے جو وہ منزل کو پا گئے
میں پتھروں سے پاؤں بچانے میں رہ گیا

عمیر منظر




ہر بار ہی میں جان سے جانے میں رہ گیا
میں رسم زندگی جو نبھانے میں رہ گیا

عمیر منظر




ہر بار ہی میں جان سے جانے میں رہ گیا
میں رسم زندگی جو نبھانے میں رہ گیا

عمیر منظر