EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آخری امید بھی آنکھوں سے چھلکائے ہوئے
کون سی جانب چلے ہیں تیرے ٹھکرائے ہوئے

اجیت سنگھ حسرت




ابھی کچھ اور تری جستجو رلائے گی
ابھی کچھ اور بھٹکنا ہے در بدر مجھ کو

اجیت سنگھ حسرت




بن سنور کر رہا کرو حسرتؔ
اس کی پڑ جائے اک نظر شاید

اجیت سنگھ حسرت




بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے
وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی

اجیت سنگھ حسرت




گزرے جدھر سے نور بکھیرے چلے گئے
وہ ہم سفر ہوئے تو اندھیرے چلے گئے

اجیت سنگھ حسرت




ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں

اجیت سنگھ حسرت




ہزار چپ سہی پر اس کا بولتا چہرہ
خموش رہ کے ہمیں لا جواب کر دے گا

اجیت سنگھ حسرت