وہ نہ آئے تو تو ہی چل رنگیںؔ
اس میں کیا تیری شان جاتی ہے
رنگیں سعادت یار خاں
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کہیں چلتی نہیں
رنگیں سعادت یار خاں
اگر چلمن کے باہر وہ بت کافر ادا نکلے
زبان شیخ سے صل علیٰ صل علیٰ نکلے
رنجور عظیم آبادی
بتوں میں کس بلا کی ہے کشش اللہ ہی جانے
چلے تھے شوق کعبہ میں صنم خانے میں جا نکلے
رنجور عظیم آبادی
بتوں میں کس بلا کی ہے کشش اللہ ہی جانے
چلے تھے شوق کعبہ میں صنم خانے میں جا نکلے
رنجور عظیم آبادی
دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ
اف ایک میرا سینہ ہے اس پر ہزار داغ
رنجور عظیم آبادی
دکھا کر زہر کی شیشی کہا رنجورؔ سے اس نے
عجب کیا تیری بیماری کی یہ حکمی دوا نکلے
رنجور عظیم آبادی