EN हिंदी
اب تو فراق صبح میں بجھنے لگی حیات | شیح شیری
ab to firaq-e-subh mein bujhne lagi hayat

غزل

اب تو فراق صبح میں بجھنے لگی حیات

عبید اللہ علیم

;

اب تو فراق صبح میں بجھنے لگی حیات
بار الٰہ کتنے پہر رہ گئی ہے رات

ہر تیرگی میں تو نے اتاری ہے روشنی
اب خود اتر کے آ کہ سیہ تر ہے کائنات

کچھ آئینے سے رکھے ہوئے ہیں سر وجود
اور ان میں اپنا جشن مناتی ہے میری ذات

بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات