جو تیرے گنہ بخشے گا واعظ وہ مرے بھی
کیا تیرا خدا اور ہے بندہ کا خدا اور
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
کافر ہو پھر جو شرع کا کچھ بھی کرے خیال
جب جام بھر کے ہاتھ سے یار اپنے دے شراب
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
ملک الموت موذن ہے مرا وصل کی رات
دم نکل جاتا ہے جب وقت اذاں آتا ہے
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
نہ لڑاؤ نظر رقیبوں سے
کام اچھا نہیں لڑائی کا
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
قشقہ نہیں پیشانی پہ اس ماہ جبیں کے
اللہ نے یہ حسن کے خرمن کو ہے چانکا
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
شاید مزاج ہم سے مکدر ہے یار کا
لکھا ہے اس نے ہم کو بہ خط غبار خط
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
ادب بخشا ہے ایسا ربط الفاظ مناسب نے
دو زانو ہے مری طبع رسا ترکیب اردو سے
منشی خیراتی لال شگفتہ

