یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے
نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں
میر حسن
ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی
لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں
میر حسن
ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر
اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز
میر حسن
چشم باطن میں سے جب ظاہر کا پردہ اٹھ گیا
جو مسلماں تھا وہی ہندو نظر آیا مجھے
میر کلو عرش
گلے میں اپنے پہنا ہے جو تو نے اے بت کافر
مری تسبیح کو ہے رشک زنار برہمن پر
میر کلو عرش
کعبہ کا اور خانۂ دل کا یہ حال ہے
جیسے کوئی مکاں ہو مکاں کے جواب میں
میر کلو عرش
کیا دیا بوسہ لب شیریں کا ہو کر ترش رو
منہ ہوا میٹھا تو کیا دل اپنا کھٹا ہو گیا
میر کلو عرش

