EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے
نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں

میر حسن




ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی
لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں

میر حسن




ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر
اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز

میر حسن




چشم باطن میں سے جب ظاہر کا پردہ اٹھ گیا
جو مسلماں تھا وہی ہندو نظر آیا مجھے

میر کلو عرش




گلے میں اپنے پہنا ہے جو تو نے اے بت کافر
مری تسبیح کو ہے رشک زنار برہمن پر

میر کلو عرش




کعبہ کا اور خانۂ دل کا یہ حال ہے
جیسے کوئی مکاں ہو مکاں کے جواب میں

میر کلو عرش




کیا دیا بوسہ لب شیریں کا ہو کر ترش رو
منہ ہوا میٹھا تو کیا دل اپنا کھٹا ہو گیا

میر کلو عرش