EN हिंदी
واجد علی شاہ اختر شیاری | شیح شیری

واجد علی شاہ اختر شیر

11 شیر

آج کل لکھنؤ میں اے اخترؔ
دھوم ہے تیری خوش بیانی کی

واجد علی شاہ اختر




اخترؔ زار بھی ہو مصحف رخ پر شیدا
فال یہ نیک ہے قرآن سے ہم دیکھتے ہیں

واجد علی شاہ اختر




برائے سیر مجھ سا رند مے خانے میں گر آئے
گرے ساغر لنڈھے شیشہ ہنسے ساقی بہے دریا

واجد علی شاہ اختر




بے مروت ہو بے وفا ہو تم
اپنے مطلب کے آشنا ہو تم

واجد علی شاہ اختر




در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

واجد علی شاہ اختر




کمر دھوکا دہن عقدہ غزال آنکھیں پری چہرہ
شکم ہیرا بدن خوشبو جبیں دریا زباں عیسیٰ

واجد علی شاہ اختر




مجھی کو واعظا پند و نصیحت
کبھی اس کو بھی سمجھایا تو ہوتا

واجد علی شاہ اختر




تراب پائے حسینان لکھنؤ ہے یہ
یہ خاکسار ہے اخترؔ کو نقش پا کہیے

واجد علی شاہ اختر




الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
دریا کا نہ جنگل کا سما کا نہ زمیں کا

واجد علی شاہ اختر