الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
دریا کا نہ جنگل کا سما کا نہ زمیں کا
اقلیم معانی میں عمل ہو گیا میرا
دنیا میں بھروسہ تھا کسے تاج و نگیں کا
تقدیر نے کیا قطب فلک مجھ کو بنایا
محتاج مرا پاؤں رہا خانۂ زیں کا
اک بوریے کے تخت پہ اوقات بسر کی
زاہد بھی مقلد رہا سجادہ نشیں کا
اخترؔ قلم فکر کے بھی اشک ہیں جاری
کیا حال لکھوں اپنے دل زار و حزیں کا
غزل
الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
واجد علی شاہ اختر