یاد میں اپنے یار جانی کی
ہم نے مر مر کے زندگانی کی
دوستوں کو عدو کیا ہم نے
کر کے تعریف یار جانی کی
کیوں نہ رسوا کرے زمانے میں
یہ کہانی غم نہانی کی
روح ہوے گی حشر میں صاحب
اک نشانی سرائے فانی کی
خاکساری سے بڑھ گیا انساں
ارض پر سیر آسمانی کی
زرد صورت پہ ہجر میں نہ ہنسو
شرح ہے رنگ زعفرانی کی
آج کل لکھنؤ میں اے اخترؔ
دھوم ہے تیری خوش بیانی کی
غزل
یاد میں اپنے یار جانی کی
واجد علی شاہ اختر