غنچۂ دل کھلے جو چاہو تم
گلشن دہر میں صبا ہو تم
بے مروت ہو بے وفا ہو تم
اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
کون ہو کیا ہو کیا تمہیں لکھیں
آدمی ہو پری ہو کیا ہو تم
پستۂ لب سے ہم کو قوت دو
دل بیمار کی دوا ہو تم
ہم کو حاصل کسی کی الفت سے
مطلب دل ہو مدعا ہو تم
یہی عاشق کا پاس کرتے ہیں
کیوں جی کیوں درپئے جفا ہو تم
اسی اخترؔ کے تم ہوے معشوق
ہنسو بولو اسی کو چاہو تم
غزل
غنچۂ دل کھلے جو چاہو تم
واجد علی شاہ اختر