گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں
کیا ہی نادانیاں نادان سے ہم دیکھتے ہیں
غیر سے بوسہ زنی اور ہمیں دشنامیں
منہ لیے اپنا پشیمان سے ہم دیکھتے ہیں
فصل گل اب کی جنوں خیز نہیں صد افسوس
دور ہاتھ اپنا گریبان سے ہم دیکھتے ہیں
آج کس شوخ کی گلشن میں حنا بندی ہے
سرو رقصاں ہیں گلستان سے ہم دیکھتے ہیں
اخترؔ زار بھی ہو مصحف رخ پر شیدا
فال یہ نیک ہے قرآن سے ہم دیکھتے ہیں
غزل
گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں
واجد علی شاہ اختر