EN हिंदी
گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں | شیح شیری
garmiyan shoKHiyan kis shan se hum dekhte hain

غزل

گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں

واجد علی شاہ اختر

;

گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں
کیا ہی نادانیاں نادان سے ہم دیکھتے ہیں

غیر سے بوسہ زنی اور ہمیں دشنامیں
منہ لیے اپنا پشیمان سے ہم دیکھتے ہیں

فصل گل اب کی جنوں خیز نہیں صد افسوس
دور ہاتھ اپنا گریبان سے ہم دیکھتے ہیں

آج کس شوخ کی گلشن میں حنا بندی ہے
سرو رقصاں ہیں گلستان سے ہم دیکھتے ہیں

اخترؔ زار بھی ہو مصحف رخ پر شیدا
فال یہ نیک ہے قرآن سے ہم دیکھتے ہیں