جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی
نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے
وحید اختر
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے
وحید اختر
ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے
بہت زمانہ ہوا تھا ہمیں زمیں سے چلے
وحید اختر
ہر ایک لمحہ کیا قرض زندگی کا ادا
کچھ اپنا حق بھی تھا ہم پر وہی ادا نہ ہوا
وحید اختر
دشت کی اڑتی ہوئی ریت پہ لکھ دیتے ہیں لوگ
یہ زمیں میری یہ دیوار یہ در میرا ہے
وحید اختر
بت بنانے پوجنے پھر توڑنے کے واسطے
خود پرستی کو نیا ہر روز پتھر چاہئے
وحید اختر
بچھڑے ہوئے خواب آ کے پکڑ لیتے ہیں دامن
ہر راستہ پرچھائیوں نے روک لیا ہے
وحید اختر
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل
جیسے انہیں میرا ہی پتا یاد نہیں ہے
وحید اختر
بام و در و دیوار کو ہی گھر نہیں کہتے
تم گھر میں نہیں ہو تو مکاں ہے بھی نہیں بھی
وحید اختر