صحراؤں میں دریا بھی سفر بھول گیا ہے
مٹی نے سمندر کا لہو چوس لیا ہے
دنیا کی ملامت کا بھی اب خوف ہے دل کو
خاشاک نے موجوں کو گرفتار کیا ہے
منزل ہے نہ جادہ ہے نہ سایہ ہے نہ پانی
تنہائی کا احساس فقط راہنما ہے
سورج بھی پڑا روتا ہے اک گہرے کنویں میں
برسوں ہوئے آکاش بھی دھندلایا ہوا ہے
بچھڑے ہوئے خواب آ کے پکڑ لیتے ہیں دامن
ہر راستہ پرچھائیوں نے روک لیا ہے
کرنوں سے تراشا ہوا اک نور کا پیکر
شرمایا ہوا خواب کی چوکھٹ پہ کھڑا ہے
پھولوں سے لدی ٹہنیاں پھیلائے ہیں بانہیں
خوشبو کا بدن خاک میں پامال پڑا ہے
دیوار و در شہر پہ ہیں خون کے دھبے
رنگوں کا حسیں قافلہ صحرا میں لٹا ہے
غزل
صحراؤں میں دریا بھی سفر بھول گیا ہے
وحید اختر