آنکھ جو نم ہو وہی دیدۂ تر میرا ہے
موج غم اٹھے کہیں اس کا گہر میرا ہے
دیکھ لوں میں تو ستارے ہیں نہ دیکھوں تو دھواں
کیا رسا اتنا کف دست نظر میرا ہے
ثمر و گل ہیں گلستان فروشوں کے لیے
آبیاری کے لیے خون جگر میرا ہے
قصر ہو یا کہ لحد دونوں کرایے کے مکاں
روز کہتا ہے کوئی آ کے یہ گھر میرا ہے
دشت کی اڑتی ہوئی ریت پہ لکھ دیتے ہیں لوگ
یہ زمیں میری یہ دیوار یہ در میرا ہے
اس شر آباد خرابے میں کہاں حسن و جمال
حسن جتنا بھی ہے سب حسن نظر میرا ہے
موت ہے جرأت اظہار کی پژمردہ لبی
ساز تخلیق لب عرض ہنر میرا ہے
وہ خدا ہو تو ہو میں ڈھونڈنے کیوں جاؤں اسے
خود ہی اپنا لے مجھے بڑھ کے وہ گر میرا ہے
کٹ کے سر پڑھتے ہیں نیزوں پہ بھی قرآن وحیدؔ
جزو تن رہ کے بھی چپ کس لیے سر میرا ہے
غزل
آنکھ جو نم ہو وہی دیدۂ تر میرا ہے
وحید اختر