رہے وہ ذکر جو لب ہائے آتشیں سے چلے
چلے وہ دور جو رفتار ساتگیں سے چلے
ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے
بہت زمانہ ہوا تھا ہمیں زمیں سے چلے
خرد بنی رہی زنجیر پائے شوق مگر
جنوں کے جتنے بھی ہیں سلسلے ہمیں سے چلے
فرات جیت کے بھی تشنہ لب رہی غیرت
ہزار تیر ستم ظلم کی کمیں سے چلے
زمانہ ایک ہی رستے پہ لا کے چھوڑے گا
رواں ہے ایک ہی دھارا کوئی کہیں سے چلے
گمان و شک کے دوراہے پہ ہم سے آ کے ملے
وہ قافلے جو کسی منزل یقیں سے چلے
ہمیں شکست حریفاں کا بھی ملال رہا
شکستہ دل جو ہم اس بزم دل نشیں سے چلے
تمام گمرہیاں دیر اور حرم میں پلیں
تمام سلسلۂ کفر اہل دیں سے چلے
وحیدؔ سیل قیامت نے راہ روکی تھی
جو بن کے اشک ہم اس چشم نازنیں سے چلے
غزل
رہے وہ ذکر جو لب ہائے آتشیں سے چلے
وحید اختر