ان کو روز اک تازہ حیلہ ایک خنجر چاہئے
ہم کو روز اک جاں نئی اور اک نیا سر چاہئے
التفات و سرگرانی پر خوشی کیا رنج کیا
کچھ بہانہ اس سے بڑھ کر دیدۂ تر چاہئے
کیا دکھائیں خشک لب دو بوند کے ساقی ہیں سب
پیاس صحرائے ازل اس کو سمندر چاہئے
سچ کی اک ننھی سی کونپل کو کچلنے کے لیے
جھوٹ اور دشنام کے لشکر کے لشکر چاہئے
صبر کا دامان دولت ہے امیروں کا امیر
جبر کی دریوزگی کو سینکڑوں در چاہئے
بت بنانے پوجنے پھر توڑنے کے واسطے
خود پرستی کو نیا ہر روز پتھر چاہئے
ہم نے جس دنیا کو ٹھکرایا تھا ان کے واسطے
مل گئے وہ تو اسی دنیا کا چکر چاہئے
غزل
ان کو روز اک تازہ حیلہ ایک خنجر چاہئے
وحید اختر