EN हिंदी
نہیں کوئی دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا | شیح شیری
nahin koi dost apna yar apna mehrban apna

غزل

نہیں کوئی دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا

تاباں عبد الحی

;

نہ کوئی دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا
سناؤں کس کو غم اپنا الم اپنا فغاں اپنا

نہ طاقت ہے اشارے کی نہ کہنے کی نہ سننے کی
کہوں کیا میں سنوں کیا میں بتاؤں کیا بیاں اپنا

نپٹ رکھتا ہے جی میرا خفا ہوں ناک میں دم ہے
نہ گھر بھاتا ہے نے صحرا کہاں کیجے مکاں اپنا

ہوا ہوں گم میں لشکر میں پری رویاں کے ہے ظالم
کہاں ڈھونڈوں کسے پوچھوں نہیں پاتا نشاں اپنا

بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دل کو صبر آوے
نہ یار آیا نہ صبر آیا دیا میں جی نداں اپنا

قفس میں بند ہیں یہ عندلیبیں سخت بے بس ہیں
نہ گلشن دیکھ سکتی ہیں نہ اب وے آشیاں اپنا

مجھے آتا ہے رونا ایسی تنہائی پہ اے تاباںؔ
نہ یار اپنا نہ دل اپنا نہ تن اپنا نہ جاں اپنا