چراغ سجدہ جلا کے دیکھو ہے بت کدہ دفن زیر کعبہ
حدود اسلام ہی کے اندر یہ سرحد کافری ملے گی
سراج لکھنوی
دام بر دوش پھریں چاہے وہ گیسو بر دوش
صید بن بن کے ہمیں نے انہیں صیاد کیا
سراج لکھنوی
دم گھٹا جاتا ہے محبت کا
بند ہی بند گفتگو ہے ابھی
سراج لکھنوی
دیا ہے درد تو رنگ قبول دے ایسا
جو اشک آنکھ سے ٹپکے وہ داستاں ہو جائے
سراج لکھنوی
ایک ایک سے بھیک آنسوؤں کی مانگ رہا ہوں
کس نے مجھے جھونکا ہے جہنم کی فضا میں
سراج لکھنوی
آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام
اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں
as my eyes did ope my yearnings did rebound
for I lost the person who in my dreams I found
سراج لکھنوی
ہاں تم کو بھول جانے کی کوشش کریں گے ہم
تم سے بھی ہو سکے تو نہ آنا خیال میں
سراج لکھنوی
حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو
آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے
سراج لکھنوی
ہر اشک سرخ ہے دامان شب میں آگ کا پھول
بغیر شمع کے بھی جل رہے ہیں پروانے
سراج لکھنوی