غسل توبہ کے لیے بھی نہیں ملتی ہے شراب
اب ہمیں پیاس لگی ہے تو کوئی جام نہیں
سراج لکھنوی
آنکھوں پر اپنی رکھ کر ساحل کی آستیں کو
ہم دل کے ڈوبنے پر آنسو بہا رہے ہیں
سراج لکھنوی
آنسو ہیں کفن پوش ستارے ہیں کفن رنگ
لو چاک کئے دیتے ہیں دامان سحر ہم
سراج لکھنوی
آگ اور دھواں اور ہوس اور ہے عشق اور
ہر حوصلۂ دل کو محبت نہیں کہتے
سراج لکھنوی
آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے
اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی
سراج لکھنوی
ابھی رکھا رہنے دو طاق پر یوں ہی آفتاب کا آئنہ
کہ ابھی تو میری نگاہ میں وہی میرا ماہ تمام ہے
سراج لکھنوی
بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
پڑا ہے کام بدلتے ہوئے زمانے سے
سراج لکھنوی
چمک شاید ابھی گیتی کے ذروں کی نہیں دیکھی
ستارے مسکراتے کیوں ہیں زیب آسماں ہو کر
سراج لکھنوی
چند تنکوں کی سلیقے سے اگر ترتیب ہو
بجلیوں کو بھی طواف آشیاں کرنا پڑے
سراج لکھنوی