ٹکراؤں کیوں زمانے سے کیا فائدہ سراجؔ
خود اپنے راستے سے ہٹا جا رہا ہوں میں
سراج لکھنوی
تجھے پا کے تجھ سے جدا ہو گئے ہم
کہاں کھو دیا تو نے کیا ہو گئے ہم
سراج لکھنوی
وہ بھیڑ ہے کہ ڈھونڈھنا تیرا تو درکنار
خود کھویا جا رہا ہوں ہجوم خیال میں
سراج لکھنوی
یہ آدھی رات یہ کافر اندھیرا
نہ سوتا ہوں نہ جاگا جا رہا ہے
سراج لکھنوی
یہ ایک لڑی کے سب چھٹکے ہوئے موتی ہیں
کعبے ہی کی شاخیں ہیں بکھرے ہوئے بت خانے
سراج لکھنوی
یہ جزر و مد ہے پاداش عمل اک دن یقینی ہے
نہ سمجھو خون انساں بہہ گیا ہے رائیگاں ہو کر
سراج لکھنوی
یہ زمیں خود ہو جنتوں کا سہاگ
یوں ہوں آباد سارے ویرانے
سراج لکھنوی
ذرا دیکھو یہ سرکش ذرۂ خاک
فلک کا چاند بنتا جا رہا ہے
سراج لکھنوی
ضرب المثل ہیں اب مری مشکل پسندیاں
سلجھا کے ہر گرہ کو پھر الجھا رہا ہوں میں
سراج لکھنوی