ہر نفس اتنی ہی لو دے گا سراجؔ
جتنی جس دل میں حرارت ہوگی
سراج لکھنوی
ہو گیا آئنہ حال بھی گرد آلودہ
گود میں لاشئہ ماضی کو لیے بیٹھا ہوں
سراج لکھنوی
اک کافر مطلق ہے ظلمت کی جوانی بھی
بے رحم اندھیرا ہے شمعیں ہیں نہ پروانے
سراج لکھنوی
اس دل میں تو خزاں کی ہوا تک نہیں لگی
اس پھول کو تباہ کیا ہے بہار نے
سراج لکھنوی
اس سوچ میں بیٹھے ہیں جھکائے ہوئے سر ہم
اٹھے تری محفل سے تو جائیں گے کدھر ہم
سراج لکھنوی
عشق کا بندہ بھی ہوں کافر بھی ہوں مومن بھی ہوں
آپ کا دل جو گواہی دے وہی کہہ لیجئے
سراج لکھنوی
جان سی شے کی مجھے عشق میں کچھ قدر نہیں
زندگی جیسے کہیں میں نے پڑی پائی ہے
سراج لکھنوی
جو اشک سرخ ہے نامہ نگار ہے دل کا
سکوت شب میں لکھے جا رہے ہیں افسانے
سراج لکھنوی
کیسے پھاندے گا باغ کی دیوار
تو گرفتار رنگ و بو ہے ابھی
سراج لکھنوی