EN हिंदी
سراج لکھنوی شیاری | شیح شیری

سراج لکھنوی شیر

54 شیر

دام بر دوش پھریں چاہے وہ گیسو بر دوش
صید بن بن کے ہمیں نے انہیں صیاد کیا

سراج لکھنوی




آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام
اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

as my eyes did ope my yearnings did rebound
for I lost the person who in my dreams I found

سراج لکھنوی




چند تنکوں کی سلیقے سے اگر ترتیب ہو
بجلیوں کو بھی طواف آشیاں کرنا پڑے

سراج لکھنوی




چمک شاید ابھی گیتی کے ذروں کی نہیں دیکھی
ستارے مسکراتے کیوں ہیں زیب آسماں ہو کر

سراج لکھنوی




بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
پڑا ہے کام بدلتے ہوئے زمانے سے

سراج لکھنوی




ابھی رکھا رہنے دو طاق پر یوں ہی آفتاب کا آئنہ
کہ ابھی تو میری نگاہ میں وہی میرا ماہ تمام ہے

سراج لکھنوی




آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے
اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی

سراج لکھنوی




آگ اور دھواں اور ہوس اور ہے عشق اور
ہر حوصلۂ دل کو محبت نہیں کہتے

سراج لکھنوی




آنسو ہیں کفن پوش ستارے ہیں کفن رنگ
لو چاک کئے دیتے ہیں دامان سحر ہم

سراج لکھنوی