آنگن ہے جل تھل بہت دیواروں پر گھاس
گھر کے اندر بھی ملا شاہدؔ کو بنواس
شاہد میر
پہلے تو چھین لی مری آنکھوں کی روشنی
پھر آئینے کے سامنے لایا گیا مجھے
شاہد میر
کاغذ پر لکھ دیجئے اپنے سارے بھید
دل میں رہے تو آنچ سے ہو جائیں گے چھید
شاہد میر
جیون جینا کٹھن ہے وش پینا آسان
انساں بن کر دیکھ لو او شنکرؔ بھگوان
شاہد میر
ہر اک شے بے میل تھی کیسے بنتی بات
آنکھوں سے سپنے بڑے نیند سے لمبی رات
شاہد میر
گنوائے بیٹھے ہیں آنکھوں کی روشنی شاہدؔ
جہاں پناہ کا انصاف دیکھنے والے
شاہد میر
درد ہے دولت کی طرح غم ٹھہرا جاگیر
اپنی اس جاگیر میں خوش ہیں شاہدؔ میر
شاہد میر
بجھتی ہوئی سی ایک شبیہ ذہن میں لیے
مٹتی ہوئی ستاروں کی صف دیکھتے رہے
شاہد میر
اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر مرے پیروں کے برابر کر دے
شاہد میر