اک سبز رنگ باغ دکھایا گیا مجھے
پھر خشک راستوں پہ چلایا گیا مجھے
طے ہو چکے تھے آخری سانسوں کے مرحلے
جب مژدۂ حیات سنایا گیا مجھے
پہلے تو چھین لی مری آنکھوں کی روشنی
پھر آئنے کے سامنے لایا گیا مجھے
رکھے تھے اس نے سارے سوئچ اپنے ہاتھ میں
بے وقت ہی جلایا بجھایا گیا مجھے
چاروں طرف بچھی ہیں اندھیروں کی چادریں
شاید ابھی فضول جگایا گیا مجھے
نکلے ہوئے تھے ڈھونڈنے خوں خوار جانور
کانٹوں کی جھاڑیوں میں چھپایا گیا مجھے
اک لمحہ مسکرانے کی قیمت نہ پوچھئے
بے اختیار پہلے رلایا گیا مجھے

غزل
اک سبز رنگ باغ دکھایا گیا مجھے
شاہد میر