آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا
محمد رفیع سودا
ہے مدتوں سے خانۂ زنجیر بے صدا
معلوم ہی نہیں کہ دوانے کدھر گئے
محمد رفیع سودا
ہر آن آ مجھی کو ستاتے ہو ناصحو
سمجھا کے تم اسے بھی تو یک بار کچھ کہو
محمد رفیع سودا
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں جو سیر کروں کوہ طور کا
محمد رفیع سودا
اس کشمکش سے دام کے کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن ترا خانہ خراب ہو
محمد رفیع سودا
عشق سے تو نہیں ہوں میں واقف
دل کو شعلہ سا کچھ لپٹتا ہے
محمد رفیع سودا
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے
محمد رفیع سودا
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
محمد رفیع سودا
کام آئی کوہ کن کی مشقت نہ عشق میں
پتھر سے جوئے شیر کے لانے نے کیا کیا
محمد رفیع سودا