EN हिंदी
آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا | شیح شیری
aadam ka jism jab ki anasir se mil bana

غزل

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا

محمد رفیع سودا

;

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا

سرگرم نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متصل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سل بنا

جس تیرگی سے روز ہے عشاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرۂ خوباں پہ تل بنا

لب زندگی میں کب ملے اس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو متھ کرکے گل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دل بنا

سن سن کے عرض حال مرا یار نے کہا
سوداؔ نہ باتیں بیٹھ کے یاں متصل بنا