EN हिंदी
محمد رفیع سودا شیاری | شیح شیری

محمد رفیع سودا شیر

60 شیر

فراق خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک
الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جدا

محمد رفیع سودا




فکر معاش عشق بتاں یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے

محمد رفیع سودا




دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا

محمد رفیع سودا




دل کے ٹکڑوں کو بغل گیر لئے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

محمد رفیع سودا




دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفت دیں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا

محمد رفیع سودا




بے ثباتی زمانے کی ناچار
کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے

محمد رفیع سودا




بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے

محمد رفیع سودا




بادشاہت دو جہاں کی بھی جو ہووے مجھ کو
تیرے کوچے کی گدائی سے نہ کھو دے مجھ کو

محمد رفیع سودا




عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا

محمد رفیع سودا