EN हिंदी
محمد رفیع سودا شیاری | شیح شیری

محمد رفیع سودا شیر

60 شیر

یہ تو نہیں کہتا ہوں کہ سچ مچ کرو انصاف
جھوٹی بھی تسلی ہو تو جیتا ہی رہوں میں

محمد رفیع سودا




زاہد سبھی ہیں نعمت حق جو ہے اکل و شرب
لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا

محمد رفیع سودا




انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے




اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح




اوروں کی برائی کو نہ دیکھوں وہ نظر دے
ہاں اپنی برائی کو پرکھنے کا ہنر دے




ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا
یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی




ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے




موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے




وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

the love that 'tween us used to be, you may, may not recall
those promises of constancy, you may, may not recall




the love that 'tween us used to be, you may, may not recall
those promises of constancy, you may, may not recall

محمد رفیع سودا




گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

محمد رفیع سودا




عبث تو گھر بساتا ہے مری آنکھوں میں اے پیارے
کسی نے آج تک دیکھا بھی ہے پانی پہ گھر ٹھہرا

محمد رفیع سودا




عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا

محمد رفیع سودا




بادشاہت دو جہاں کی بھی جو ہووے مجھ کو
تیرے کوچے کی گدائی سے نہ کھو دے مجھ کو

محمد رفیع سودا




بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے

محمد رفیع سودا




بے ثباتی زمانے کی ناچار
کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے

محمد رفیع سودا