EN हिंदी
اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا | شیح شیری
apne ka hai gunah begane ne kya kiya

غزل

اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا

محمد رفیع سودا

;

اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا
اس دل کو کیا کہوں کہ دوانے نے کیا کیا

یاں تک ستانا مج کو کہ رو رو کہے تو ہائے
یارو نہ تم سنا کہ فلانے نے کیا کیا

پردہ تو راز عشق سے اے یار اٹھ چکا
بے سود ہم سے منہ کے چھپانے نے کیا کیا

آنکھوں کی رہبری نے کہوں کیا کہ دل کے ساتھ
کوچے کی اس کے راہ بتانے نے کیا کیا

کام آئی کوہ کن کی مشقت نہ عشق میں
پتھر سے جوئے شیر کے لانے نے کیا کیا

ٹک در تک اپنے آ مرے ناصح کا حال دیکھ
میں تو دوانا تھا پہ سیانے نے کیا کیا

چاہوں میں کس طرح یہ زمانے کی دوستی
اوروں سے دوست ہو کے زمانے نے کیا کیا

کہتا تھا میں گلے کا ترے ہو پڑوں گا ہار
دیکھا نہ گل کو سر پہ چڑھانے نے کیا کیا

سوداؔ ہے بے طرح کا نشہ جام عشق میں
دیکھا کہ اس کو منہ کے لگانے نے کیا کیا