EN हिंदी
دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا | شیح شیری
daman saba na chhu sake jis shah-sawar ka

غزل

دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا

محمد رفیع سودا

;

دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا
پہنچے کب اس کو ہاتھ ہمارے غبار کا

موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے
دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا

خون جگر شراب و ترشح ہے چشم تر
ساغر مرا گرو نہیں ابر بہار کا

چشم کرم سے عاشق وحشی اسیر ہو
الفت ہے دام آہوئے دل کے شکار کا

سونپا تھا کیا جنوں نے گریبان کو مرے
لیتا ہے اب حساب جو یہ تار تار کا

سوداؔ شراب عشق نہ کہتے تھے ہم، نہ پی
پایا مزا نہ تو نے اب اس کے خمار کا