دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا
پہنچے کب اس کو ہاتھ ہمارے غبار کا
موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے
دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا
خون جگر شراب و ترشح ہے چشم تر
ساغر مرا گرو نہیں ابر بہار کا
چشم کرم سے عاشق وحشی اسیر ہو
الفت ہے دام آہوئے دل کے شکار کا
سونپا تھا کیا جنوں نے گریبان کو مرے
لیتا ہے اب حساب جو یہ تار تار کا
سوداؔ شراب عشق نہ کہتے تھے ہم، نہ پی
پایا مزا نہ تو نے اب اس کے خمار کا
غزل
دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا
محمد رفیع سودا