خالی خالی رستوں پہ بے کراں اداسی ہے
جسم کے تماشے میں روح پیاسی پیاسی ہے
خواب اور تمنا کا کیا حساب رکھنا ہے
خواہشیں ہیں صدیوں کی عمر تو ذرا سی ہے
راہ و رسم رکھنے کے بعد ہم نے جانا ہے
وہ جو آشنائی تھی وہ تو نا شناسی ہے
ہم کسی نئے دن کا انتظار کرتے ہیں
دن پرانے سورج کا شام باسی باسی ہے
دیکھ کر تمہیں کوئی کس طرح سنبھل پائے
سب حواس جاگے ہیں ایسی بد حواسی ہے
زخم کے چھپانے کو ہم لباس لائے تھے
شہر بھر کا کہنا ہے یہ تو خوں لباسی ہے
غزل
خالی خالی رستوں پہ بے کراں اداسی ہے
ثروت زہرا