حور پر آنکھ نہ ڈالے کبھی شیدا تیرا
سب سے بیگانہ ہے اے دوست شناسا تیرا
رند لکھنوی
امسال فصل گل میں وہ پھر چاک ہو گئے
اگلے برس کے تھے جو گریباں سیے ہوئے
رند لکھنوی
عشق کچھ آپ پہ موقوف نہیں خوش رہئے
ایک سے ایک زمانے میں طرحدار بہت
رند لکھنوی
کعبے کو جاتا کس لیے ہندوستاں سے میں
کس بت میں شہر ہند کے شان خدا نہ تھی
رند لکھنوی
کافر ہوں نہ پھونکوں جو ترے کعبے میں اے شیخ
ناقوس بغل میں ہے مصلیٰ نہ سمجھنا
رند لکھنوی
کریم جو مجھے دیتا ہے بانٹ کھاتا ہوں
مرے طریق میں تنہا خوری حلال نہیں
رند لکھنوی
خاک چھنواتی ہے دیوانوں سے اپنے مدتوں
وہ پری جب تک نہ کر لے در بدر ملتی نہیں
رند لکھنوی
کھلی ہے کنج قفس میں مری زباں صیاد
میں ماجرائے چمن کیا کروں بیاں صیاد
رند لکھنوی
کسی کا کوئی مر جائے ہمارے گھر میں ماتم ہے
غرض بارہ مہینے تیس دن ہم کو محرم ہے
رند لکھنوی