EN हिंदी
رند لکھنوی شیاری | شیح شیری

رند لکھنوی شیر

54 شیر

رندان عشق چھٹ گئے مذہب کی قید سے
گھنٹہ رہا گلے میں نہ زنار رہ گیا

رند لکھنوی




رتبۂ کفر ہے کس بات میں کم ایماں سے
شوکت کعبہ تو ہے شان کلیسا دیکھو

رند لکھنوی




شوق نظارہ دیدار میں تیرے ہمدم
جان آنکھوں میں مری جان رہا کرتی ہے

رند لکھنوی




طبیعت کو ہوگا قلق چند روز
ٹھہرتے ٹھہرتے ٹھہر جائے گی

رند لکھنوی




تھا مقدم عشق بت اسلام پر طفلی میں بھی
یا صنم کہہ کر پڑھا مکتب میں بسم اللہ کو

رند لکھنوی




ٹوٹے بت مسجد بنی مسمار بت خانہ ہوا
جب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا

رند لکھنوی




اداس دیکھ کے مجھ کو چمن دکھاتا ہے
کئی برس میں ہوا ہے مزاج داں صیاد

رند لکھنوی




وعدے پہ تم نہ آئے تو کچھ ہم نہ مر گئے
کہنے کو بات رہ گئی اور دن گزر گئے

رند لکھنوی




زلفوں کی طرح عمر بسر ہو گئی اپنی
ہم خانہ بدوشوں کو کہیں گھر نہیں ملتا

رند لکھنوی