EN हिंदी
رند لکھنوی شیاری | شیح شیری

رند لکھنوی شیر

54 شیر

دیوانوں سے کہہ دو کہ چلی باد بہاری
کیا اب کے برس چاک گریباں نہ کریں گے

رند لکھنوی




آنکھ سے قتل کرے لب سے جلائے مردے
شعبدہ باز کا ادنیٰ سا کرشمہ دیکھو

رند لکھنوی




آدمی پہچانا جاتا ہے قیافہ دیکھ کر
خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر

رند لکھنوی




عالم پسند ہو گئی جو بات تم نے کی
جو چال تم چلے وہ زمانے میں چل گئی

رند لکھنوی




اگری کا ہے گماں شک ہے ملا گیری کا
رنگ لایا ہے دوپٹہ ترا میلا ہو کر

رند لکھنوی




اے جنوں تو ہی چھڑائے تو چھٹوں اس قید سے
طوق گردن بن گئی ہے میری دانائی مجھے

رند لکھنوی




اے پری حسن ترا رونق ہندوستاں ہے
حسن یوسف ہے فقط مصر کے بازار کا روپ

رند لکھنوی




اے شب فرقت نہ کر مجھ پر عذاب
میں نے تیرا منہ نہیں کالا کیا

رند لکھنوی




اپنے مرنے کا اگر رنج مجھے ہے تو یہ ہے
کون اٹھائے گا تری جور و جفا میرے بعد

of death the only regret I profess
is who will you then torture and oppress

رند لکھنوی