دل کس سے لگاؤں کہیں دلبر نہیں ملتا
کیا ظلم سہوں کوئی ستم گر نہیں ملتا
خط لے کے گیا جو وہ کبوتر نہیں ملتا
کیا ذکر کبوتر کا ہے اک پر نہیں ملتا
زلفوں کی طرح عمر بسر ہو گئی اپنی
ہم خانہ بدوشوں کو کہیں گھر نہیں ملتا
کیا خاک مداوا کریں شوریدہ سری کا
سر پھوڑنے کو ڈھونڈھیں تو پتھر نہیں ملتا
گنجلک نہیں مٹتی جو طبیعت میں پڑی ہے
دل تجھ سے کسی طور سے دلبر نہیں ملتا
کیا کیجئے تعریف بنا گوش کی اس کے
آویزے کو جس کان کے گوہر نہیں ملتا
گم جب سے ہوا ہوں میں تری راہ طلب میں
جب ڈھونڈھتا ہوں آپ کو اکثر نہیں ملتا
کچھ طالب زر بت ہی نہیں غور سے دیکھو
حق یوں ہے کہ اللہ بھی بے زر نہیں ملتا
صورت نہیں ملتی تری صورت سے کسی کی
گہنے سے کسی کے ترا زیور نہیں ملتا
آرائشیں موقوف ہوئیں کس لئے اے جان
گوہر نہیں ملتا ہے کہ زر گر نہیں ملتا
ابرو کی محبت میں کسے زیست ہے منظور
مر جاؤں گلا کاٹ کے خنجر نہیں ملتا
رندان مے آشام نہیں جام کے پابند
ہم اوک سے پیتے ہیں جو ساغر نہیں ملتا
وحشت میں نکل جاؤں میں سرحد سے زمیں کی
اس گنبد گرداں کا ولے در نہیں ملتا
او برق تجلی ترے کشتے کی لحد پر
کیا لوح بنے طور کا پتھر نہیں ملتا
حاضر ہوں مجھے بستۂ فتراک فرس کر
گر صید کوئی ترک ستم گر نہیں ملتا
عاشق سے نہ کھینچ آپ کو اے بادشہ حسن
درویش سے کیا جھک کے تونگر نہیں ملتا
جو زخم کو سینے کے سیے ٹانکے جگر کو
ایسا کوئی استاد رفوگر نہیں ملتا
اے رندؔ لبالب ہو جو عرفان کی مے سے
ساغر وہ بجز ساقیٔ کوثر نہیں ملتا
غزل
دل کس سے لگاؤں کہیں دلبر نہیں ملتا
رند لکھنوی