ہم کسی کو گواہ کیا کرتے
اس کھلے آسمان کے آگے
رسا چغتائی
ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے میں
اپنا نہ کہوں اور وہ اپنا مجھے سمجھے
رسا چغتائی
حال دل پوچھتے ہو کیا تم نے
ہوتے دیکھا ہے دل اداس کہیں
رسا چغتائی
گھر میں جی لگتا نہیں اور شہر کے
راستے لگتے نہیں اپنے عزیز
رسا چغتائی
دل دھڑکتا ہے سر راہ خیال
اب یہ آواز جہاں تک پہنچے
رسا چغتائی
چاند ہوتا نہیں ہر اک چہرہ
پھول ہوتے نہیں سخن سارے
رسا چغتائی
بہت دنوں سے کوئی حادثہ نہیں گزرا
کہیں زمانے کو ہم یاد پھر نہ آ جائیں
رسا چغتائی
بہت دنوں میں یہ عقدہ کھلا کہ میں بھی ہوں
فنا کی راہ میں اک نقش جاوداں کی طرح
رسا چغتائی
بارہا ہم پہ قیامت گزری
بارہا ہم ترے در سے گزرے
رسا چغتائی