یوں گنواتا ہے کوئی جان عزیز
زندگی ہوتی تو ہم رکھتے عزیز
کیا بتائیں اب بکھر جانے کے بعد
آشیاں تھا یا ہمیں تنکے عزیز
ڈھونڈھتا ہے آج کنج عافیت
دل کبھی جس کو تھے ہنگامے عزیز
حسن تھا اس شہر کا آوارگی
اور ہمیں تھے پاؤں کے چھالے عزیز
یہ نہ قصہ ہے نہ انداز بیاں
یہ مرا احوال ہے یار عزیز
گھر میں جی لگتا نہیں اور شہر کے
راستے لگتے نہیں اپنے عزیز
اس طرح کیا اے غبار دل کوئی
رقص کرتا ہے سر کوئے عزیز
سائے ہیں جتنے گریزاں دھوپ سے
دھوپ کو ہیں اتنے ہی سائے عزیز
یا تعلق کچھ نہ تھا یا آپ کو
غم ہمارے ہو گئے اتنے عزیز
سامنے آتے نہیں اور خواب میں
منہ چھپا لیتے ہیں دزدان عزیز
آنکھ ہے یا سیرگاہ روز و شب
وقت ہے یا جادۂ عمر عزیز
کیا عجب جو درد و غم رخصت ہوئے
وہ بھی تھے آخر رساؔ اپنے عزیز
غزل
یوں گنواتا ہے کوئی جان عزیز
رسا چغتائی