تیر جیسے کمان کے آگے
موت کڑیل جوان کے آگے
بادشاہ اور فقیر دونوں تھے
شہر میں اک دکان کے آگے
چلتے چلتے زمین رک سی گئی
ناگہاں اک مکان کے آگے
ہم بھی اپنا مجسمہ رکھ آئے
رات اندھی چٹان کے آگے
طشت جاں میں سجا کے رکھنا تھا
حرف دل میہمان کے آگے
کیا عجب شخص ہے کہ بیٹھا ہے
دھوپ میں سائبان کے آگے
ہم کسی کو گواہ کیا کرتے
اس کھلے آسمان کے آگے
کب تلک جھوٹ بولتے صاحب
اس طرح خاندان کے آگے
کون کہتا رساؔ خدا لگتی
ایسے کافر گمان کے آگے
غزل
تیر جیسے کمان کے آگے
رسا چغتائی