EN हिंदी
تیر جیسے کمان کے آگے | شیح شیری
tir jaise kaman ke aage

غزل

تیر جیسے کمان کے آگے

رسا چغتائی

;

تیر جیسے کمان کے آگے
موت کڑیل جوان کے آگے

بادشاہ اور فقیر دونوں تھے
شہر میں اک دکان کے آگے

چلتے چلتے زمین رک سی گئی
ناگہاں اک مکان کے آگے

ہم بھی اپنا مجسمہ رکھ آئے
رات اندھی چٹان کے آگے

طشت جاں میں سجا کے رکھنا تھا
حرف دل میہمان کے آگے

کیا عجب شخص ہے کہ بیٹھا ہے
دھوپ میں سائبان کے آگے

ہم کسی کو گواہ کیا کرتے
اس کھلے آسمان کے آگے

کب تلک جھوٹ بولتے صاحب
اس طرح خاندان کے آگے

کون کہتا رساؔ خدا لگتی
ایسے کافر گمان کے آگے