آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم
ایک مجمع کے لیے شعر سناتے ہوئے ہم
کس گماں میں ہیں ترے شہر کے بھٹکے ہوئے لوگ
دیکھنے والے پلٹ کر نہیں جاتے ہوئے ہم
کیسی جنت کے طلب گار ہیں تو جانتا ہے
تیری لکھی ہوئی دنیا کو مٹاتے ہوئے ہم
ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی
یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم
توڑ ڈالیں گے کسی دن گھنے جنگل کا غرور
لکڑیاں چنتے ہوئے آگ جلاتے ہوئے ہم
تم تو سردی کی حسیں دھوپ کا چہرہ ہو جسے
دیکھتے رہتے ہیں دیوار سے جاتے ہوئے ہم
خود کو یاد آتے ہی بے ساختہ ہنس پڑتے ہیں
کبھی خط تو کبھی تصویر جلاتے ہوئے ہم
غزل
آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم
نعمان شوق