EN हिंदी
نصیر ترابی شیاری | شیح شیری

نصیر ترابی شیر

10 شیر

آج کی رات اجالے مرے ہمسایہ ہیں
آج کی رات جو سو لوں تو نیا ہو جاؤں

نصیر ترابی




عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

نصیر ترابی




اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے
تو کہاں ہے مجھے تنہا کر کے

نصیر ترابی




میں اک شجر کی طرح رہ گزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا

نصیر ترابی




ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا

نصیر ترابی




شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے

نصیر ترابی




تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے

نصیر ترابی




وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نصیر ترابی




یہ ہوا سارے چراغوں کو اڑا لے جائے گی
رات ڈھلنے تک یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا

نصیر ترابی