EN हिंदी
ہم اپنے گھر سے برنگ ہوا نکلتے ہیں | شیح شیری
hum apne ghar se ba-rang-e-hawa nikalte hain

غزل

ہم اپنے گھر سے برنگ ہوا نکلتے ہیں

نجیب احمد

;

ہم اپنے گھر سے برنگ ہوا نکلتے ہیں
کسی کے حق میں کسی کے خلاف چلتے ہیں

ابھی تو دن ہے ابھی تخت آسماں پہ چمک
طلوع شام کے ساتھ آفتاب ڈھلتے ہیں

چلے بھی ہم تو مہ و سال کی مثال چلے
فقیر لوگ انہی سلسلوں میں پلتے ہیں

اڑے بھی ہم تو اسی سمت رخ رہا اپنا
جدھر اڑیں تو فرشتوں کے پر بھی جلتے ہیں

ہمارے عکس ترے شہر میں رہے آباد
کہ اس جگہ تو فقط آئنے بدلتے ہیں

زمیں پہ پاؤں ذرا احتیاط سے دھرنا
اکھڑ گئے تو قدم پھر کہاں سنبھلتے ہیں

نجیبؔ جن کو غرض ہو نہ کچھ زمانے سے
انہی کے ساتھ ابد تک زمانے چلتے ہیں