سر نیاز وہ سودا نظر نہیں آتا
وہ جیسا پہلے تھا ویسا نظر نہیں آتا
وہ رات تھی تو بسر ہو گئی بہر صورت
اگر یہ دن ہے تو کٹتا نظر نہیں آتا
یہ کس کی اوٹ میں جلتے رہے رتوں کے چراغ
کسی گلی میں اجالا نظر نہیں آتا
رکوں تو حجلۂ منزل پکارتا ہے مجھے
قدم اٹھاؤں تو رستہ نظر نہیں آتا
ہوا میں روئی کے گالوں کی طرح اڑتا ہے
مجھے وہ قول کا پکا نظر نہیں آتا
نجیبؔ چار طرف نفرتوں کی ٹھاٹھیں ہیں
چڑھا ہوا ہو تو دریا نظر نہیں آتا

غزل
سر نیاز وہ سودا نظر نہیں آتا
نجیب احمد