کرن تو گھر کے اندر آ گئی تھی
سنہری دھوپ کیوں کجلا گئی تھی
کچھ ایسی بے حسی سے پیش آیا
کہ میری بے کسی شرما گئی تھی
چھناکا تو مرے اندر ہوا تھا
تری آواز کیوں بھرا گئی تھی
وہی رشتے وہی ناطے وہی غم
بدن سے روح تک اکتا گئی تھی
جنم پا کر جنم پایا نہ میں نے
مجھے لفظوں کی ناگن کھا گئی تھی
تھکن میں ڈھل گیا لہجہ کسی کا
مری خواہش کو بھی نیند آ گئی تھی
وہ چنگاری ہوا بانہیں بکھیرے
لپٹ کر مجھ کو بھی جھلسا گئی تھی
وہ کب اندر تھا جو باہر نہ آیا
نجیبؔ اک بات کیا سمجھا گئی تھی

غزل
کرن تو گھر کے اندر آ گئی تھی
نجیب احمد