امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہت
رنج کھینچے ہم نے اپنی لا مکانی میں بہت
وہ نہیں اس سا تو ہے خواب بہار جاوداں
اصل کی خوشبو اڑی ہے اس کے ثانی میں بہت
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرف
چاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت
اس کو کیا یادیں تھیں کیا اور کس جگہ پر رہ گئیں
تیز ہے دریائے دل اپنی روانی میں بہت
آج اس محفل میں تجھ کو بولتے دیکھا منیرؔ
تو کہ جو مشہور تھا یوں بے زبانی میں بہت
غزل
امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہت
منیر نیازی